اوصافِ رسالت
حضرت امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، میرے ماموں حضرت ہند ابن ابی ھالہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺکے اوصاف بیان کرنے میں مشہورتھے ، میرے استفسار پر انھوں نے فرمایا: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صاحب عظمت لوگوں میں برگزیدہ تھے ، آپ کی پیشانی ماہ تمام کی طرح چمکتی ، آپکی قامت زیبا درمیانہ قدسے متجاوز ،مگر طویل القامتی سے کم تھی ، آپ کا سر مبارک بڑا اورگیسو قدرے خمیدہ تھے، جو اکثر کانو ں کی لو سے متجاوز ہوتے ، رنگت نکھری ہوئی ، چمکدار ، ماتھا کشادہ ، ابرو باریک دراز ، جن میں بالوں کی کثرت تھی ، نیز دونوں ابروئوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر آتی ، ناک باریک درمیان سے اٹھی ہوئی اورنورانی ، ریش مبارک گھنی ، آنکھوں کی پتلیاںسیاہ ، رخسار دراز ، دہن فراخ ، دانت آبدار اورسامنے سے کشادہ سینہ پر بالوں کی لکیر تھی ، گردن ہاتھی دانت یا چاندی کی طرح صاف تھی ، تمام اعضاء ، متناسب ، حسین ، فربہ اورقوی تھے ، پیٹ اورسینہ ہموار ، چھاتی چوڑی اورابھری ہوئی ، اندام مضبوط ، کل جسم پر نور، سینہ پر بالوں کے علاوہ کہیں بال نہیں تھے، کلائیاں لمبی اور ہتھلیاں چوڑی، تمام انگلیاں فربہ ، تلوئوں میں گڑھا نہ تھا، دونوں تلوے صاف رہتے ،پھٹے نہ ہوتے ، پانی پڑنے پر فورا بہہ جاتا ، آپ قدرے جھک کر متانت اوروقار کے ساتھ چلتے ، رفتار میں تیزی اورسرعت تھی ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک صاحب قوت شخص اپنے نعلین سے پتھروں کی ناہمواری کو مسلتا ہوا نشیب کی طرف اتر رہا ہے ، جب التفات فرماتے تو پوری توجہ کے ساتھ ، نگاہیں زمین پر رہتیں ، دیکھنے کا انداز گوشہ ء چشم سے تھا، اپنے اصحاب کے پیچھے چلتے اورہمیشہ دوسروں سے السلام علیکم کہنے میں سبقت فرمایا کرتے ، پھر میرے استفسار پر آپکی گفتار کے بار ے میں فرمایا:حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خزن وملال کی کیفیت دائمی تھی ، ہمیشہ فکر مند رہتے ، کسی لمحہ آپ کو چین اورانبساط نہ تھا، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے خاموش رہتے ، خوش کلامی سے کلام کی ابتداء کرتے اورخوش کلامی پر ہی اختتام فرماتے ، گفتگو ٹھو س ، بامقصد ،جچا تلا انداز، سوچی سمجھی رائے ، جامعیت اوراختصار کے ساتھ ہوتی نہ اس میں تشنگی رہتی اورنہ ہی غیر ضروری الفاظ ہوتے ، آپ نعمت کی قدر ، اوراس پر شکر کرتے ، اگر چہ وہ قلیل ہو، اشیاء طعام کی نہ برائی کرتے نہ تعریف میں مبالغہ ، حق کی مدافعت کیلئے غصب ناک ہوتے تو کوئی باطل پرست تاب برداشت نہ رکھتا اپنی ذات کیلئے کبھی ترش اور خفانہ ہوتے ، نہ اپنے کارناموں پر داد وتحسین کو پسند فرماتے یا گوارا کرتے، ناز یبا بات کو دیکھ کر یا سن کر اعراض فرماتے جس سے آپکی نا پسند اورناراضگی کا فوراً اندازا ہوجاتا، مسرت وانبساط کے وقت نگاہیں جھکالیتے ، ہنسی تبسم سے زیادہ نہ ہوتی ، (ترمذی، طبرانی )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں