اتوار، 8 نومبر، 2020

قرابت داری کا لحاظ

 

 قرابت داری کا لحاظ

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے بیان فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب لوگوں (قریش مکہ)کی (دین میں )روگردانی دیکھی تو آپ ﷺنے دعاکی: اے اللہ تعالیٰ ! ان کو حضرت یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح قحط میں مبتلا فرما۔ ان کو شدید قحط نے آلیا جس نے ہرچیز کو ختم کردیا حتیٰ کہ وہ بھوک کی شدت کی وجہ سے کھالیں اورمردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ آدمی آسمان کی طرف نظر اٹھا تا تواسے دھواں سادکھائی دیتا۔ ابوسفیان حضور نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا: اے محمد(ﷺ)! آپ ، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اورصلہ رحمی کی تعلیم دینے آئے ہیں، آپ کی قوم توبرباد ہوتی جارہی ہے، آپ ان کیلئے دعاکریں۔ (صحیح مسلم) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : نبی محتشم ﷺ نے (اپنے چچا)حضرت عباس ؓسے فرمایا: جب پیر کی صبح ہوتو آپ اورآپ کے بچے میرے پاس آئیں تاکہ میں ان کیلئے ایسی دعاکروں جس سے اللہ تعالیٰ آ پ کو اورآپکے بچوں کو فائدہ پہنچائے ، لہٰذا (مذکور صبح کو)ہم آپکی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور انور ﷺ نے ہمارے اوپر ایک کپڑا ڈال دیا اوردعاکی: اے اللہ تعالیٰ ! عباس اوران کے بچوں کی مغفرت فرما۔ایسی مغفرت جو ظاہر بھی ہواورباطن بھی ہو اورجو کسی گناہ کو باقی نہ چھوڑے ۔ اے اللہ تعالیٰ ! ان کی ان کے بچوں کے معاملات میں حفاظت فرما۔(جامع ترمذی)
(حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چچا زاد بہن)حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:میں فتح مکہ کے سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرمارہے تھے اور آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں، میں نے سلام عرض کیا توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں ، آپ نے فرمایا: ام ہانی کو خو ش آمدید ، جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ اُٹھ کھڑے ہوئے اورآپ نے ایک ہی کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعتیں اداکیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! میرے ماں جائے (بھائی) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ اس شخص کو قتل کردیں گے جس کو میں نے پناہ دی ہے اوروہ ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ام ہانی ! جس کو تو نے پناہ دی ہے اس کو ہم نے بھی پناہ دی ہے۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:یہ چاشت کے وقت کی بات ہے۔(صحیح بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں