صبر واستقامت والے
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسکو، دنیا کے اندر ،مصائب میں مبتلا فرماتا ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو سزا دینا چاہتا ہے تو ،اس کے گناہوں کے سبب ، اس کا دنیوی عذاب روک دیتا ہے تا کہ قیامت کے روز اس کو پورا پورا عذاب دے، اسی سند سے حضور نبی کریم ﷺکا یہ ارشادبھی مروی ہے : مصیبتیں جتنی بڑی ہوں ثواب اتنا ہی عظیم ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو ان کو مصیبتوں میں مبتلاکردیتا ہے ، ان میں سے جو لوگ (اس قضائے الٰہی پر )راضی ہوں ان کو خدا کی خوشنودی عطاہوتی ہے اورجو لوگ (اس قضائے الٰہی کو )ناپسند کریں وہ خدا کی ناراضگی کا شکار ہوتے ہیں۔(جامع ترمذی)حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ!سخت ترین مصیبتیں کن لوگوں پر نازل ہوتی ہیں؟ حضور نے فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام پر، پھر جو (درجات میں)ان سے قریب ہوں، پھر جو ان سے قریب ہوں۔آپ نے فرمایا: آدمی کی آزمائش اسکے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگراسکے دین میں قوت ہوتو اسکی مصیبتیں سخت ہوجاتی ہیں اوراگر اسکے دین میں کمزوری ہوتو اسکی آزمائش اسکے دین کے مطابق ہوتی ہے ، بندے پر مصیبتیں آتی رہتی ہیں حتیٰ کہ وہ اس کو اس حال میں پہنچا دیتی ہیں کہ وہ زمین پر چل رہا ہوتا ہے اوراس (کے دامن)پر گناہ کا کوئی داغ نہیں ہوتا۔(جا مع ترمذی)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ سجدہ فرمارہے تھے اور آپکے ارد گرد قریش کے لوگ کھڑے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط ذبح شدہ اونٹ کی جھلی لایا اوراسے رسول اللہ ﷺ کی پشت پر ڈال دیا، حضور نبی محتشم ﷺنے سجدے سے سرنہیں اٹھایا ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں ، انہوں نے اس جھلی کو نبی کریم ﷺکی پشت سے ہٹایا اورجن لوگوں نے یہ معیوب حرکت کی تھی انکے خلاف دعاکی ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (بارگاہ الٰہی میں)دعاکی: اے رب ! ان قریشی سرداروں کا معاملہ تیرے سپرد ہے، ابوجہل بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف شعبہ راوی کو شک ہے، حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ یہ مذکور تمام سردار جنگ بدرمیں قتل ہوئے اوران سب کو ایک کنویں میں پھینک دیاگیا سوائے اُمیہ یا ابی کے کہ اسکے جسم کے جوڑ الگ ہوگئے اوراسکو کنویں میں نہیں ڈالا گیا۔(صحیح بخاری)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں