بہترین شخص
خیر خواہی ایک ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تمام اخلاق کی بنیاد رضائے الٰہی ہی ہے۔ مخلوق کے لیے اپنے دل میں ہمدردی اور خیر خواہی رکھنا ایک سنہری اصول ہے۔
حضور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک محبوب وہ ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے ‘‘۔ (مشکوۃ شریف)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی اللہ کی مخلوق کی خیر اور بھلائی چاہی۔ آپ ؐ کا مقصد حیات لوگوں کو نفع پہنچانا اور فیضیاب کرنا تھا۔آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔
فرمان مصطفی ﷺ ہے : اللہ تعالی تمام معاملات میں نرمی پسند کرتا ہے۔( بخاری شریف)۔
ہمیں ذاتی مفاد اور غرض کے بغیر لوگوں کو نفع پہنچانا چاہیے۔ رشتہ داروں سے بھی بھلائی کریں اور دوسرے حاجت مندوں سے بھی۔ اور جانوروں کے ساتھ بھی بھلائی کریں۔ بد سلوکی اور دوسروں کو نقصان پہنچانا ایک نا پسندیدہ عمل ہے اور آپ ؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن رتبے کے لحاظ سے وہ بد ترین شخص ہو گا جس کے شر کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں۔ (بخاری شریف)۔
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرے۔ دوسروں کے ساتھ مہربانی ، لطف و عنایت ، نرم دلی اور خیر خواہی ایک اعلی انسان کی صفات ہیں۔ بوڑھوں ، یتیموں ، بیوائوں، بچوں اور مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ خیر خواہی اور ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : ’’ وہ تنگدستی کے باوجود دوسرے مسلمان بھائیوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘( سورۃ الحشر )۔
حضرت ابو جہم بن حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ یرموک کے میدان میں اپنے زخمی بھائی کی تلاش میں نکلے جب پانی لے کر بھائی کے پاس پہنچے اور اسے پانی پلانے ہی لگے تھے کہ دوسرے زخمی کے کراہنے کی آواز آئی تو زخمی بھائی نے اپنے بھائی سے کہاکہ پہلے اسے پانی پلائیں۔ جب صحابی پانی لے کر اس کے پاس پہنچے تو تیسرے زخمی کی آواز آئی تو صحابی نے کہا کہ پہلے اسے پلائیں۔ جب صحابی پانی لے کر تیسرے صحابی کے پاس پہنچے تو وہ شہیدہو چکے تھے۔ واپس دوسرے کے پاس آئے تو وہ بھی شہیدہو چکے تھے پھر جب اپنے بھائی کے پاس پہنچے تو وہ بھی شہادت کا جام پی چکے تھے۔ یہ تھا صحابہ کرام کا اپنے بھائیوں کے لیے جذبہ ایثار۔
آپؐ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ ہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں