جمعرات، 3 جولائی، 2025

سیدنا فاروق اعظم ؓ(۲)

 

سیدنا فاروق اعظم ؓ(۲)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان خوش نصیب صحابہ کرام میں سے ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے جنت کی بشارت دی۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک محل دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ کس کا محل ہے ؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ عمر بن خطاب ؓ کا محل ہے میں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا پھر مجھے تمہاری غیرت یاد آ گئی۔ حضرت عمرؓ رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ کیا آپ پر بھی غیرت کی جا سکتی ہے۔ ( مسلم )۔
سیدنا فاروق اعظم ؓ عدل و انصاف کے پیکر تھے۔ آپ  کا دور خلافت عدل و انصاف کا اعلی نمونہ تھا۔ اپنی سلطنت میں موجود ہر شہری تک انصاف پہنچانا آپ کی پہلی ترجیح تھی۔ آپ کے سامنے امیر ، غریب مسلمان اور غیر مسلم سب برابر تھے۔ 
سیدنا فاروق اعظم ؓ کا احتسابی امر دوسرے لوگوں کے ساتھ خاص نہیں تھا بلکہ اپنے گھر والوں خصوصا اپنے بیٹوں کا بھی احتساب فرماتے۔آپ نے قرآن و سنت کے خلاف امور کی پکڑ کے ساتھ ساتھ ان تمام امور کی بھی گرفت کی جن کا تعلق عوامی یا معاشرتی مصلحتوں کے ساتھ تھا۔جب مصر کے گورنر کے بیٹے نے قطبی کو مارا تو آپ نے قطبی کو گورنر کے بیٹے سے بدلہ دلوایا اور فرمایا کہ تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر لیا ہے حالانکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا۔ 
سیدنا فاروق اعظم ؓ کا زہد و تقوی انتہائی زیادہ تھا۔ آپ ؓ ساڑھے بائیس مربع میل کی خلافت کے مالک تھے لیکن اسکے باوجود آپؓ کے لباس پر پیوند لگے ہوتے ، راتوں کو گشت کرتے ، غریبوں کے گھروں میں خود جا کر راشن پہنچاتے۔ آپ کے دور میں اسلام نے بہت ساری فتوحات حاصل کیں۔ دین اسلام میں سب سے پہلے کافروں کے سامنے اپنا اسلام ظاہر کیا ، فوجی چھائونیاں قائم کیں ، پولیس کا محکمہ بنایا ، جیل خانہ جات بنائے،بیت المال قائم کیا ، لوگوں اور دودھ پیتے بچوں کے بھی وظائف مقرر کیے ، شہروں کی تعمیر کروائی ، نہریں کھدوائیں اور جمع قرآن مجید کا مشورہ دیا۔آپ کا دور خلافت ایک مثالی دور تھا جس کی مثال آج تک دنیا میں نہیں ملتی۔
ابو لولو نامی لعین نے نماز فجر کی حالت میں آپ  کے پیٹ میں خنجر مارا۔ خنجر اتنا گہرا لگا کہ آپ کی آنتیں کٹ گئیں۔ آپ کو گھر لایا گیا توحضرت عبداللہؓ کو بلا کر کہا کہ جائو حضرت عائشہ ؓ کے پا س اور امیر المومنین نہیں کہنا بلکہ میرا نام لے کر کہنا کہ عمرؓ اپنے دوستوں کے ساتھ دفن ہونا چاہتا ہے۔ حضرت عبد اللہؓ نے حضرت عمرؓ کی درخواست پیش کی تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن آج میں اپنی ذات پر عمرؓ  کو ترجیح دیتی ہوں۔ اسلام کا یہ چمکتاستارہ یکم محرم الحرام کو اپنے خالق حقیقی کو جا ملا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں