ہفتہ، 11 جنوری، 2025

زکوۃ و صدقات کے آداب (۳)

 

زکوۃ و صدقات کے آداب (۳)

زکوۃ و صدقات ادا کرتے وقت ریاکاری سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ ریاکاری ایسا عمل ہے جو اچھے اسے اچھے عمل کو بھی خاک میں ملا دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے عمل کی کوئی حثییت نہیں ہے۔ حضور ﷺنے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کا ثواب اسی سے حاصل کرو جس کو دکھانے کے لیے یہ عمل کرتے رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اس صدقہ کی مثال ایسے ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ جب اس پر زور کی بارش پڑی تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ان کی کمائی میں سے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا اور اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا نا شکروں کو ‘‘۔ ( سورۃ البقرۃ )۔
ریاکاری کی مثال ایسے دی گئی ہے کہ کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہو ں اور اس میں اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں اور وہ بوڑھا ہو جائے۔ اسکے بچے ابھی چھوٹے ہوں اور باغ پر گرم ہوا کا ایک بگولا آئے اور اسے جلا کر راکھ کردے۔ ایسے ہی مثال اس کی ہے جو ریاکاری کے لیے عمل کرتا ہے اور قیامت کے دن اسکے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ 
اللہ تعالیٰ کی راہ میں حلال مال خرچ کرناچاہیے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک ہے اور پاک چیزوں کو پسند فرماتا ہے۔ حرام کمائی ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا باعث ثواب تو دور کی بات ہے یہ موجب کفر ہے۔ کیونکہ جب حرام مال اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک نہایت ناپسندیدہ چیز ہے تو اس میں سے صدقہ کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے ایمان والو خدا کی راہ میں اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو ‘‘۔ (سورۃ البقرۃ )۔
اس میں حرام کمائی کی مذمت بھی ہے کہ جب حرام کمائی سے کیا گیا صدقہ و خیرات منہ پہ مار دیا جاتا ہے تو اس کی مذمت میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ 
صدقہ وخیرات کرتے وقت بندے کے دل میں احساس برتری پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ عام طور پر جب کو ئی بندہ کسی کے ساتھ بھلائی کرتاہے تو اس کے ذہن میں آ جاتا ہے کہ میں نے اسکے ساتھ بڑا احسان کیا ہے۔ اور یہ بات مومن کے ایمان کے منافی ہے۔ کیونکہ اسے یہ سارا مال و دولت اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے تو اسے اس کے سامنے عاجزی اختیا ر کرنی چاہیے۔ اہل ایمان کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’اور وہ جنہوں نے کچھ دیا وہ اس حال میں ہوتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ المؤ منون)
اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے وقت اگر ان آداب کو اپنائیں گے تو ہمیں اس کا فائدہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اجر وثواب ملے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں