ذکر اور دعا
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ اور سب سے بہترین دعا الحمدللہ ہے۔( ابن ماجہ )۔
ذکر اور دعا صاحب معرفت انسان کے تخلیقی کلمات ہیں۔ انسان کی زندگی میں مختلف واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر سوچنے کی صلاحیت ہو تو وہ اس بات کو ضرور سمجھ لے گا کہ ان مواقعوں پر اللہ تعالیٰ کی یاد کا کوئی نہ کوئی پہلو لازمی موجود ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ ان لمحات میں جس قدر ہو سکے رب ذوالجلال کا ذکر کرے اور کثرت کے ساتھ دعا کرے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے یا پھر مالک کائنات سے دعا فرماتے تھے۔
ترمذی شریف کی روایت ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دعا عبادت کا مغز ہے۔ ترمذی شریف ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے دعا ہی اصل عبادت ہے۔
یہ بات قرآن و حدیث میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے دعا کا عین عبادت ہونا فطری ہے۔ کیوں کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کے وجود کو اس کی صفات کمال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اسی کے ساتھ انسان یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ خدا کے مقابلے میں میں بالکل بے حقیقت ہوں۔
خدا آقا ہے میں بندہ ہوں ، خدا دینے والا ہے اور میں طالب ہوں ، خدا حاکم ہے اور میں محکوم ہوں۔ خدا قادر مطلق ہے اور میں عاجز اور محتاج ہوں۔ یہی احساس بندے کو فوری طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا گو بنا دیتا ہے۔
دعا ہی وہ سب سے بڑا رشتہ ہے جس کے ذریعے بند ہ اپنے رب سے مربوط ہوتا ہے۔ دعا خدا اور بندے کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہے۔ انسان جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے دعا سے حاصل کرتا ہے۔ اور تمام اعمال کا مقصد آدمی کو خدا سے دعا کرنے والا بنانا ہے تا کہ وہ خدا سے پانے والا بن جائے۔
دعا صرف کچھ الفاظ کی تکرار نہیں بلکہ دعا ایک عمل ہے بلکہ دعا سب سے بڑا عمل ہے جس طرح حقیقی عمل کبھی بے نتیجہ نہیں رہتا اسی طرح حقیقی دعا بھی کبھی بے نتیجہ نہیں رہتی۔ جب کوئی بندہ حقیقی دعا کرتا ہے تو وہ گویا اپنے معاملات کو خدا کے سپرد کر دیتا ہے اور جب معاملات خدا کے سپر د تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کو پورا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور اس کی بارگاہ میں دست التجا بلند کرنے سے انسان کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں