شعائر اللہ(۱)
شعائر اللہ یعنی اللہ تعالی کی نشانیاں ان کی تعظیم و توقیر کرنے والے کو اللہ تعالی ایسا مقام دیتا ہے کہ اسے متقی کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ شعائر اللہ کی تعظیم لازم و ملزوم ہے اوراس پر اجرو ثواب ملتا ہے اور جو شعائر اللہ کی تعظیم نہیں کرے گا گناہ گار ہو گا ۔ خانہ کعبہ ، روضہ رسول ﷺ ، ہجر اسود ، غار ثور ، صفا و مروہ ، مقام ابراہیم یہ سب اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں ۔ حج کے مناسک میں جو شعائر اللہ شامل ہیں ان میں صفا و مروہ کی پہاڑیاں اور قربانی کے جانورشامل ہیں ۔
صفاو مروہ نوعیت کے اعتبار سے عام پہاڑیوں کی ہی طرح ہیں لیکن ان کی نسبت اللہ تعالی کے نیک بندوں سے ہوئی تو اللہ تعالی نے اسے اپنی نشانی قرار دیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کو خانہ کعبہ کے قریب ویرانے میں چھوڑ کر آئے اور ساتھ میں چند کھجوریں اور پانی تھا۔ جب پانی ختم ہو گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی اردگرد دور تک کوئی بھی آبادی کے آثار موجود نہیں تھے۔ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا کی پہاڑی پر جاتی اور کبھی مروہ کی پہاڑی پر۔ اللہ تعالی کو اپنی نیک بندی کی یہ ادا پسند آئی تو اسے حج کا رکن بنا دیا۔ جب بھی حاجی حج کرنے آئے گا تو ان پہاڑیوں پر ایسے ہی چکر لگائے گا جیسے حضرت حاجرہ نے لگائے تھے۔
ارشاد باری تعالی ہے : ”بیشک صفا اور مروہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو اس کے گھر کا حج یا عمرہ کرے گا اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے“۔ (سورة البقرة )
اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور آزمائش میں ڈالا اور حکم دیا کہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کی اس آزمائش میں بھی کامیاب ہوئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں‘ بتا اس میں تیری کیا رائے ہے ۔ بیٹے نے کہا جیسے آپ کو اللہ تعالی نے حکم دیا ہے آپ ویسے ہی کریں۔
ارشاد باری تعالی ہے : ” پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا‘ کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں اب تو بتا تیری کیا رائے ہیں۔ کہا اے میرے باپ کیجئے۔ جس بات کا آپ کو اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔ خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابرین میں پائیں گے ۔ (سورة الصفٰت )
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو اداب فرزندی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں