پیر، 6 مارچ، 2023

مردم شناسی

 

مردم شناسی

حضرت عمرو بن تغلب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مال پیش کیاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کو تقسیم فرمایا۔کچھ لوگوں کو آپ نے مال عطا فرمایا اور کچھ کو چھوڑ دیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپتا چلا کہ آپ نے جن لو گوں کو ترک کیا ہے وہ ناراض ہو رہے ہیں۔آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءکی اور پھر فرمایا: امابعد!خدا کی قسم میں کسی شخص کو مال دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں۔حالانکہ جس کو میں ترک کرتا ہوںوہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے جس کو میں دیتا ہوں۔میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوںکہ مجھے ان کے دلوں میں بے صبری اور بے قراری نظر آتی ہے اور کچھ لو گوں کو اس خیر اور غناءکے سپرد کر دیتاہوں جو  ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے فرما رکھی ہے۔ان لوگو ں میں سے ایک عمرو بن تغلب بھی ہیں۔عمرو بن تغلب (راوی)فرماتے ہیں:خدا کی قسم!مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کے بدلے میں سرخ اونٹ ملیں تو یہ بھی مجھے پسند نہیں۔(صحیح بخاری)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرما تے ہیں:حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال)عطا فرمایا۔میں ان لوگو ں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ان میں سے ایک شخص کوحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا۔اسے کچھ عطا نہیں فرمایا۔میری نظر میں وہ شخص ان سب سے اچھا تھا۔میں اٹھ کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔آپ سے سر گوشی کی اور عرض کیا:کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلا ں شخص کو چھوڑ دیا ہے ،خدا کی قسم!میری نظر میں وہ مومن ہے۔آپ نے فرمایا:بلکہ یہ کہو کہ وہ مسلم ہے ۔راوی کہتے ہیں:میں تھوڑی دیر خاموش رہا۔پھر اس شخص کے متعلق میرااعتقادمجھ پر غالب آگیااور میں نے عرض کی:یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) !کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص کو عطا سے محروم رکھا، حالانکہ وہ مجھے مومن نظر آتا ہے؟آپ نے فرمایا:بلکہ یوں کہو کہ وہ مسلمان ہے ۔راوی کہتے ہیں:میں تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر اس شخص کے متعلق میرااعتقادمجھ پر غالب آگیااور میں نے عرض کیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص کو عطا سے محروم رکھا،حالانکہ میری نظر میں وہ مومن ہے؟۔آپ نے فرمایا:بلکہ یہ کہو کہ وہ مسلم ہے۔یہ بات میں نے تین مرتبہ عرض کی پھر آپ نے فرمایا :میں کسی شخص کو دیتا ہوںحالانکہ اس کہ علاوہ کوئی دوسرا مجھے زیادہ محبوب ہوتا ہے،اس خوف سے کہ کہیں(بے صبری اور عدم توکل کے باعث)اسے منہ کے بل دوزخ میں نہ ڈال دیا جائے۔(صحیح بخاری)
حضرت ابن عباس اضی اللہ تعالیٰ عنہمابیان فرماتے ہیں،حضورعلیہ الصلوٰة والسلام ،اس بیماری کے دوران جس میں آپ کاوصال ہوا،باہر تشریف لائے۔آپ نے سر مبارک پر ایک کپڑا باندھ رکھا تھا۔آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناءکی اور فرمایا:لوگوں میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کا ابو بکر بن ابی قحافہ سے زیادہ اپنی جان اور مال کے لحاظ سے ،مجھ پر احسان ہو۔اگر میں کسی کو اپنا خلیل (دوست)بناتا تو ابو بکر کو بناتا،البتہ اسلام کی دوستی ہی افضل ترین ہے ۔اس مسجد کی طرف کھلنے والی تمام کھڑ کیاں بند  کر دو سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے۔(صحیح بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

چند سورتوں اور آیات کی فضیلت(۱)

    چند سورتوں اور آیات کی فضیلت(۱) قرآن مجید پڑھنا سب عبادتوں سے افضل ہے اور خاص طور پر نماز میں کھڑے ہو کر قرآن مجیدکی تلاوت کرنا ۔ آپ...