ہفتہ، 7 جنوری، 2023

علم :حسن انتخاب

 

علم :حسن انتخاب

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، تم پر لازم ہے کہ علم کے اٹھنے سے پہلے اسے حاصل کرلواوراس کے اٹھنے سے مراد اس کے روایت کرنے والوں کا فوت ہوجانا ہے۔اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ ءقدرت میں میری جان ہے جو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں قتل ہوکر شہید ہوئے وہ بھی جب اہل علم کی عزت وعظمت دیکھیں گے تو تمناکریں گے کہ کاش اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو بھی علماءکے طور پر اٹھاتا اورتم میں سے کوئی بھی پیدائشی طور پر عالم نہیں ہوتا ، علم تو سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، مجھے رات کا کچھ حصہ علم کے مذاکرے میں بسر کرنا،عبادت میں رات گزارنے سے زیادہ پسند ہے۔حضرت سلیمان بن داﺅد علیہ السلام کو علم ،دولت اوربادشاہی میں سے ایک کا اختیار دیا گیا تو انھوں نے علم کو اختیار کیا چنانچہ انھیں دولت اوربادشاہی بھی عطاکردی گئی ۔
امام غزالی ارشادفرماتے ہیں کہ حضرت فتح موصلی نے لوگوں سے پوچھاکیا یہ بات نہیں کہ جب مریض کو کھانے پینے سے روک دیا جائے تو وہ مرجاتا ہے، حاضرین نے کہا:ہاں کیوں نہیں، آپ نے فرمایا :دل کا بھی یہی حال ہے جب اس سے علم اورحکمت کو تین دن روکا جائے تو وہ بھی مرجاتا ہے۔حضرت موصلی نے بجاارشادفرمایاکیونکہ دل کی غذا علم وحکمت ہے وہ ان دونوں کے ذریعے ہی زندہ رہتا ہے ۔ جس طرح جسم کی غذا کھانا ہے لہٰذاجس نے علم کی غذا نہ پائی اس کا دل بیمار ہے اوراس کی موت لازمی ہے لیکن (بدقسمتی سے )اسے اس بات کا شعورنہیں ہوتا کیونکہ دنیا کی محبت اوراس میں مشغولیت اس احساس زیاں کو دبا دیتی ہے۔جیسے غلبہ خوف کی وجہ سے زخم کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا اگرچہ وہ موجود ہوتی ہے لیکن جب موت انسان سے دنیا کے بوجھ کوہٹادیتی ہے تو اسے اپنی ہلاکت کا احساس ہوتا ہے اوراس وقت وہ بہت افسوس کرتا ہے کیونکہ وہ اسے نفع نہیں دیتا ۔یہ اسی طرح ہے جیسے کسی شخص کا خوف زائل ہوجائے اوراسے نشے سے افاقہ حاصل ہو جائے تو اسے ان زخموں کے درد کا احساس ہوتا ہے، جو اس کو نشے یا خوف کی حالت میں لگتے ہیں۔پس ہم اس دن سے پناہ چاہتے ہیں جب حقیقت کھل جائے گی، اب تو لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مرجائیں تو بیدار ہوجائیں گے۔
حضرت سالم بن ابی الجعہ فرماتے ہیں ،میں غلام تھا میرے مالک نے مجھے تین سو دراہم میں خریدا اورآزاد کردیا، میں نے سوچا کہ میں کون سا کسب کروں، میں نے علم کے شعبے کو اختیارکرلیاابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ حاکم شہر مجھ سے ملاقات کے لیے آیا لیکن میں نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے اسے اجازت نہ دی۔(احیاءالعلوم)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں