سورۃ بقرہ کے مضامین (۱۸)
تحویل قبلہ : کفار ، منافقین ، یہود ونصاریٰ کے ذکر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کی اولاد کے طرزِ عمل کو اجاگر کیاگیا، اوراس بات کی وضاحت کردی گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کی صالح اولاد نہ تو یہودی تھی اورنہ نصرانی بلکہ وہ تودین حنیف کے پیروکار تھے، اوراللہ کے پیارے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی دین حنیف کے داعی اورمبلغ ہیں، آپ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء کے مصداق ہیں اورآپ کے پیغام کے حقیقی وارث ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کے معمار ہیں اورمکہ مکرمہ کی آبادی اوراسکی خوشحالی کیلئے دعاء کرنیوالے ہیں۔ اہل کتاب اس حقیقت سے آگاہ ہیں اللہ نے بیت اللہ کو قبلہ بنایا ہے ، مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑنے اسکے بہت عرصہ کے بعد تعمیر کیا اوراس کا رخ بھی بیت اللہ کی طرف تھا، یہود دانستہ اس حقیقت سے اغماض برتتے تھے ، حضرت ابراہیم ؑکے نظریات اوربیت اللہ کے شرف تعمیر کو بیان کرنے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم دیاگیا، اوراس کی ابتداء ہی میں یہ ذکر کردیا گیا کہ جو لوگ نادان اوربے سمجھ ہیں وہ اس امر پر بہت اعتراض اٹھا ئیں گے اورشور وغوغا کرینگے کہ قبلہ کو تبدیل کرنے کا کیا مقصد ہے؟ مسلمانوں کو پہلے ہی ذہن نشین کرادیا گیا کہ وہ کسی تذبذب کا شکار نہ ہوں کیونکہ اصل بات تو اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے، کسی سمت یا کسی گھر میں کوئی ذاتی خصوصیت نہیں کہ وہ قبلہ گاہ مومنین ہو، اللہ جس جگہ کو چاہے برکت عطاء فرمادے اور اسے قبلہ بنادے ، امام بخاری روایت کرتے ہیں ، حضرت براء ؓکا بیان ہے کہ جب رسول اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپنے نانا یاماموں کے گھر میں قیام فرماہوئے ، آپ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی لیکن آپ کو پسند یہ تھا کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہوجائے (سویہ حکم نازل ہوا کہ اے حبیب ہم آپ کا رخ انور ملاحظہ کررہے ہیں، جو ہمارے حکم کے انتظار میں باربار آسمان کی طرف اٹھ رہا ہے، سو ہم آپ کا رخ آپکی پسند اوررضاء کے مطابق پھیر دیں گے)آپ نے (بیت اللہ کی طرف رخ کرکے)جو پہلی نماز ادا فرمائی وہ عصر کی نماز تھی ، آپکے ساتھ ایک جماعت نے نماز پڑھی (ایک روایت یہ ہے کہ یہ حکم بنو سلمہ کی مسجد میں عین نماز کے دوران نازل ہوا، آپ نے دورکعتیں بیت المقدس اوردوبیت اللہ کی طرف رخ کرکے ادافرمائیں اور نمازیوں نے آپکی اطاعت کی)آپکے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک صاحب ایک مسجد کے پاس سے گزرے وہ اس وقت حالتِ رکوع میں تھے، انھوں نے کہا، میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے ، وہ لوگ یہ سن کر نماز کی حالت میں ہی بیت اللہ کی طرف یکسوہوگئے ، یہود اوردیگر اہل کتاب کو یہ پسند تھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہیں جب آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف رخ انور کرلیا تو ان کو بہت ہی ناگوار محسوس ہوا۔(صحیح بخاری)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں