ایمان(حدیثِ جبریل ۲)
حدیثِ جبریل (بخاری ومسلم) میں دوسرا سوال ایمان کے بارے میں ہے۔ایمان اَمن سے ماخوذ ہے اور امن کا معنی ہے نفس کا مطئمن ہونا اور خوف کا زائل ہونا ۔ امن ، امانت ، امان اصل میں مصادر ہیں ۔ ’’امان‘‘ انسان کی حالتِ امن کو کہتے ہیں ۔ انسان کے پاس جو چیز حفاظت کے لیے رکھی جائے اس کو امانت کہتے ہیں۔(امام راغب اصفہانی)
ایمان کے اصل معنی کسی کے اعتبار اور اعتماد پر کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں ۔ دین کی خاص اصطلاح میں ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر ایسی حقیقتوں کے متعلق جو ہمارے حواس اور آلاتِ ادراک کی حدود سے ماوراہوں جو کچھ بتلائی اور ہمارے پاس جو علم اور جو ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائیں ۔ہم ان کو سچا مان کر اس میں ان کی تصدیق کریں ۔ اور اس کو حق مان کو قبول کرلیں ۔بہر حال شرعی ایمان کا تعلق اصولاً امو ر غیب ہی سے ہوتاہے ۔جن کو ہم اپنے آلاتِ احساس وادراک (آنکھ،ناک،کان وغیرہ ) کے ذریعے معلوم نہیں کرسکتے ۔مثلاً اللہ اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولو ں کی رسالت اور ان پر وحی کی آمد ، اور مبداومعاد (یعنی کا ئنات کا آغاز وانجام )کے متعلق ان کی اطلاعات وغیرہ وغیرہ تو اس قسم کی جتنی باتیں اللہ کے رسول بیان فرمائیں ان سب کو ان کی سچائی کے اعتماد پر حق جان کر ماننے کا نام اصطلاحِ شریعت میں ایمان ہے ۔ اور پیغمبر کی اس قسم کی کسی ایک بات کو نہ ماننا اس کو حق نہ سمجھنا ہی اس کی تکذیب ہے۔ جو آدمی کو ایمان کے دائرہ سے نکال کر (کفر)کی سرحد میں داخل کردیتی ہے۔ پس آدمی کے مومن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کُلُّ مآ جاء بہ الرسول من عنہ اللہ کی (یعنی تمام ان چیزوں اور حقیقتوں کی جو اللہ کے پیغمبر اللہ کی طرف سے لائے )تصدیق کی جائے اور ان کو حق مان کر قبول کیا جائے۔ لیکن ان سب چیزوں کی پوری تفصیل معلوم ہونی ضروری نہیں بلکہ نفسِ ایمان کے لیے یہ اجمالی (مختصر) تصدیق بھی کافی ہے۔ البتہ کچھ خاص ،اہم اور بنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ایمانی دائرہ میں آنے کے لیے ان کی تصدیق ’’تعین ‘‘ کے ساتھ ضروری ہے۔ چنانچہ حدیث زیرِ تشریح (حدیث جبریل ) میں ایمان کے متعلق سوال کے جواب جن امور کا ذکر فرمایا گیا ہے (یعنی اللہ ، ملائکہ (فرشتے ) اللہ کی کتابیں ۔اللہ کے رسول ، روزقیامت اور ہر خیر وشر کی تقدیر ) تو ایمانیات میں سے یہ وہی اہم اور بنیادی امور ہیں۔ جن پر ’’تعین ‘‘ کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے۔ اور اسی واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاذکر صراحۃً اور یقین کے ساتھ فرمایا۔(معارف الحدیث)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں