بدھ، 9 دسمبر، 2020

مؤمن اور آزمائش


 

 مؤمن اور آزمائش

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مؤمن کاحال اس کھیتی کی طرح ہے جسے ہوائیں اُلٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں اورمؤمن کوکوئی مصیبت وبلا آتی رہتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو لہراتا نہیں حتیٰ کہ اسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ 

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ کسی خیروبرکت کا ارادہ فرماتا ہے اسے کسی پریشانی میں بھی مبتلاکر دیتا ہے۔ 

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے بڑی جزاء بڑی بلاء سے وابستہ ہے اوراللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تووہ اسے کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے تو جو اس پر راضی رہے اس کے لیے اللہ کی رضا اورجو اس پر ناراض ہواس کے لیے اللہ تعالیٰ کا غیظ وغضب اورآپ کا ہی فرمان ہے کہ صدمہ اورمصیبت کے آغاز پر ہی درحقیقت صبر ہوتا ہے۔ 

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ خیروبھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے ۔

حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ جب اللہ عزوجل کسی قوم سے محبت کرتا ہے توآزمائش میں ڈال دیتا ہے ۔ جو اس پر صبر کرے اس کے لیے اجر اورجواس پر بے صبری کا مظاہرہ کرے اس کے لیے ندامت وخوف ہوتا ہے۔ 

٭ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت امت مرحومہ ہے جسے آخرت میں عذاب نہ ہوگا۔ اسے دنیا میں ہی زلزلہ ،قتل اوربلاء وآزمائش میں مبتلاکیاجائے گا۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔

٭ حضرت ابوسعید خدری اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ سے یہ سنا کہ جب مؤمن کوکوئی رنج وغم اور حزن وبیماری پہنچتی ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔(الآداب:امام ابوبکر احمدبن حسین بیہقی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں