اتوار، 13 دسمبر، 2020

ہر کام اخلاص سے کرو(۱)

 

 ہر کام اخلاص سے کرو(۱)

٭ عقبہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ ان سے شفی اصبہی نے یہ روایت بیان کی ، انھوں نے علمِ حدیث کے حصول کی خاطر مدینہ طیبہ کا قاصد کیا ، وہ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے تو وہاں انھوں نے ایک باوقار شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کے اردگرد ہجوم کیے ہوئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے استفسار کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟لوگوں نے کہا:یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معزز صحابی حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ )ہیں،جو حدیث پاک کا درس دے رہے ہیں۔میں نے بھی ان کے قریب ہونے کی کوشش کی ، یہاں تک کہ میں ان کے سامنے مؤدب ہوکر بیٹھ گیا ، وہ درسِ حدیث دیتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے اورمجلس برخاست ہوگئی۔میں ان کی خدمت میں اکیلارہ گیا ، میں نے ان سے عرض کیا ، میں آپ کو اللہ رب العزت کی قسم دلاتا ہوں آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے جنا ب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں سنی ہو، اسے ذہن نشین کیا ہواورخوب اچھی طرح سمجھا ہو۔(یہ حسنِ طلب دیکھ کر )حضرت ابوہریرہ نے فرمایا:میں تمہیں ضرور ایسی حدیث سنائوں گا جو مجھ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ، میں نے اسے ذہن نشین کیا اوراچھی طرح سمجھا ۔یہ ارشادفرمایاتو آپ پراُس حدیث کے تاثر کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی ، ہم نے کچھ دیر توقف کیا ، انہیں افاقہ ہوا تو فرمانے لگے میں تمہیں ضرور وہ حدیث سنائوں گا، جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان فرمائی ، اُس وقت آپ اورمیں اسی گھر میں تھے ، میرے اورآپ کے علاوہ کوئی اورموجود نہیں تھا۔یہ کہہ کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر پھر غشی کا دورہ پڑا تھوڑی دیر بعد افاقہ ہوا تو آپ نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرا اورفرمایا: میں تمہیں ضرور وہ حدیث سنائوں گاجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان فرمائی ، آپ اورمیں اس گھر میں تھے میرے اورآپ کے علاوہ یہاں کوئی اورنہیں تھایہ فرمایا تو اُن پر پھر غشی کا شدید دورہ پڑگیا اوروہ غشی کی حالت میں چہرے کے بَل گر گئے میں آگے بڑھا اورمیں نے انہیں کافی دیر تک سہارا دیے رکھا جب افاقہ ہوا تو فرمانے لگے وہ حدیث سنو ۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں