اتوار، 31 اگست، 2025

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 33-35. کیا ہم قرآن پاک کو اپنے ع...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 32.حق سے انکار کرنے والے پر جنت ...

اسلام سے قبل عرب کے حالات

 

اسلام سے قبل عرب کے حالات

اسلام سے قبل عرب کے حالات بہت خراب تھے لوگ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہو ئے تھے۔ عرب میں معاشرتی ، تمدنی ، اخلاقی کمزوریاں اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ عرب کے رہنے والے انسان برائے نام ہی انسان رہ گئے تھے۔آداب معاشرت بالکل ختم ہو چکے تھے۔ ہر طرف ظلم و ستم ، جبرو تشدد نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ کفرو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فحش باتوں سے بالکل بھی نہیں بچا جاتا تھا۔بے حیائی اس قدر عام ہو گئی تھی کہ حج کے موقع پر برہنہ حالت میں طواف کیا جاتا تھا۔ ہر شخص اپنے افعال اور اقوال میں آزاد تھا۔خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کے نام پر اشعار لکھے جاتے تھے اور بازاروں میں سر عام گایا جاتا تھا۔ کو ئی ولولہ اور ارمان چھپا کر نہیں رکھا جاتا تھا۔ زنا پر نادم ہو نے کی بجائے فخر کیا جاتا تھا۔ عرب کے لوگوں کے لیے شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں سے زیادہ محبوب کوئی مشغلہ نہیں تھا۔ پھر نشہ کی حالت میں بد مست ہو کر نہایت شرم ناک افعال کیے جاتے اور ان پر فخر کیا جا تا تھا۔ قمار بازی شرفا ء  اور امراء کا بہترین مشغلہ تھا۔ ہر جگہ قمار خانے کھلے ہو ئے تھے جن میں عرب کے بڑے بڑے رئیس شامل ہوتے تھے اور بڑی بڑی رقوم ہارتے اور جیتتے تھے۔ سود خوری نہایت ہی معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ نہایت ہی بے دردی سے ضرورت مندوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کو لوٹا جاتا تھا۔ لونڈیوں کو ناچنا گانا سکھا کر بازاروں میں بیٹھا دیا جا تا تھا اور وہ جو کما کر لاتی تھیں وہ سب کچھ آقا کا ہوتا تھا اور اس پیسے سے بڑی بڑی دعوتیں کی جاتی تھیں۔
 د و قبیلوں کے درمیان اگر کوئی جنگ چھڑ جاتی تھی تو پچیس پچیس ، تیس تیس سال تک جاری رہتی تھی۔ ہزاروں لوگ ان جنگوں میں مارے جاتے تھے۔ یہ لڑائیاں شعرو شاعری اور گھوڑ دوڑ کی وجہ سے ہوتی تھی۔ عورت کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا اور معاشرے میں اس کی کوئی عزت نہیں تھی۔ ہر قبیلے اور گھر نے اپنا الگ الگ بت بنایا ہواتھا۔ مگر ہبل ، اساف ، نائلہ ، لا ت و منات ان کو بہت عزت والے  سمجھا جاتا تھا اور لوگ ان کی پرستش کرتے تھے۔ دہریے کسی پیغبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے۔ یہ خدا کا بھی انکار کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی۔ یہودیوں نے خانہ کعبہ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نام کے بت رکھے اوران کی پوجا کرتے تھے۔ عیسائی تثلیث کے قائل تھے اور انہوں نے بھی تین بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔

ہفتہ، 30 اگست، 2025

ماہ ربیع الاوّل اور ہماری ذمہ داریاں(۲)

 

ماہ ربیع الاوّل اور ہماری ذمہ داریاں(۲)

نبی کریمﷺ نے مساوات ، اخوت و بھائی چارہ اور خدمت خلق پر مبنی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ آپ   نے عورتوں کو کھویا ہوا مقام واپس دلایا ،غلاموں کو آزادی کی راہ دکھائی اور انہیں معاشرے کا با عزت فرد قرار دیا اور یتیموں اور مسکینوں کو ان کے حقوق دلائے۔آج کے دور میں معاشرے میں ناانصافی ، ظلم و جبر اور بد عنوانی کی بڑی وجہ سیرت نبوی ﷺ  سے دوری ہے۔
حضور نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے ہمیں خدمت خلق کا نمایاں پہلو ملتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ آج مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ ضرورت اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب دو وقت کی روٹی سے محروم ہے یا بڑی مشکل سے میسر ہے۔جو لوگ بیمار ہیں وہ ادویات سے محروم ہیں۔ اس ماہ مقدس میں ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم ضرورت مندوں کی مدد کریں گے ، یتیموں کا سہارا بنیں گے اور جس قدر ہو سکا خدمت خلق کریں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ماہ مقدس کو اصلاح نفس ، تجدید عہد اور سنت نبوی ؐ کے احیاء کا ذریعہ بنائیں۔جب تک ہم عملی طور پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے تب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ محض زبانی دعویٰ ہے۔اگر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق ہے تو آپ ؐ کی سیرت کی عملی جھلک ہماری زندگیوں میں نظر آنی چاہیے۔ 
ماہ ربیع الاوّل کا حقیقی پیغام یہی ہے کہ ہم اپنے پیارے محبوبﷺ کی سیرت کو پڑھیں ،سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ہمیں اپنی انفرادی زندگیوں کو عبادات ، اخلاق اور تعلقات کو سنت نبویؐ کے مطابق ڈھالنا ہوگا جبکہ اجتماعی سطح پر عدل و انصاف ، مساوات اور خدمت خلق کے اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ 
اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے وہ نبی عطا فرمایا جن کی اطاعت میں ہی ہماری نجات ہے۔ اس ماہ مقدس کی حقیقی خوشی محسوس کرنے کے لیے ہمیں اپنے دلوں میں عشق مصطفی ؐ کی شمع روشن کرنی ہو گی اور اپنی زبانوں کو درود سلام کے نذرانے سے معطر کرنا ہو گا۔اور اپنی زندگیوں میں صدق ، عدل ، خدمت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔ جب ہم اپنی زندگیوں کو سیرت طیبہ کے سانچے میں ڈھال لیں گے تو دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گی اور آخرت میں بھی کامیابی ہمارامقدر بنے گی۔ربیع الاوّل ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ نجات کا واحد راستہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کرنا ہے۔

حکمت کی بات - کیا ہم ہدایتِ الٰہیہ کی کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟